۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
تعارفی جائزہ: مدیریت توحش «إداره التوحش؛ اخطر مرحله ستمر بها الامه» management of savage

حوزہ/داعش در حقیقت ایک ایسا گروپ ہے جو در حقیقت ، دنیا میں کہیں بھی آگ کو بھڑکانے میں ملوّث ہوسکتا ہے اور اسکے وجود کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ابوبکر ناجی ابتدائی بحث میں «سائکس پیکو معاہدے کے بعد سے عالمی نظام حکومت» کے عنوان تلے لکھتا ہے کہ «سائکس پیکو» معاہدے کے بعد عالمی نظام دو بڑے حصوں میں تقسیم ہوگیا۔

حوزہ نیوز ایجنسیl

تعارفی جائزہ: مدیریت توحش «إداره التوحش؛ اخطر مرحله ستمر بها الامه» management of savage

مؤلف: ابوبکر ناجی

ناشر: نقد فرہنگ، 1396خورشیدی

ظاہری صورت: 291ص

‏تبصرہ نگار: سید لیاقت علی کاظمی

کتاب کے مطالب

«مدیریت توحش اور اسکا تاریخی پس منظر»، «اسلامک اسٹیٹ کا قیام»،«ایکشن پلان پر عمل درآمد میں سب سے اہم اصول اور پالیسیاں» ، «انتہائی اہم مسائل اور رکاوٹیں» اور «نتیجہ» اس کتاب کےیہ پانچ عنوانات ہیں۔

کتاب «مدیریت توحش» اور کتاب کے مصنف کے بارے میں

«مدیریت توحش» نامی اس کتاب کو دہشت گرد گروہ داعش کا "منشور" سمجھا جاسکتا ہے، ابوبکر ناجی نے-القاعدہ کا ممتاز متفکر- سال 2004میں اس کتاب کو لکھا اور شائع کیا۔ 2006 میں اسکا انگریزی زبان میں ترجمہ management of savageنام سے ہوا، اس کتابچے کے مؤلف کا مستعار نام ابی بکر ناجی ہے، العربیہ نیٹ ورک کا دعویٰ ہے کہ مصنف کا اصل نام محمد خلیل الحکایمہ یا محمد حسن خلیل الحکیم ہے۔خلیل الحکیم اکتوبر 2008 میں شمالی وزیرستان میں امریکی ڈرون کے ذریعے ہلاک ہوا تھا۔ وہ داعش تحریک میں اپنے نظریات اور تحریروں کے ظہور کو مشاہدہ کرنے کے لئے زیادہ عرصہ تک زندہ نہیں بچ پایا جو کہ بہت ہی زیادہ خطرناک تھے اور اب وہ مشرق وسطی میں پھیل رہے ہیں۔

یہ کتابچہ دراصل داعش کے اندرونی گروپ کا خاص مورد مطالعہ نسخہ ہے جو انکے کام کرنے کے طور طریقوں کی عکاسی اور انکے سوچنے سمجھنے اور انکے پلان اور ذہنی کیفیت کو بیان کرتا ہے کہ جو انہیں القاعدہ سے جدا ہونے کے بعد ایک نئی راہ کی نشاندہی کرنے میں معاون ہے۔

اگرچہ مدیریت توحش نامی یہ کتاب اسلامی بنیاد پرست سوچ کے ایک نئے دور کا آغاز ہے اور اپنے پیش رو گروہوں سے جدا ہے ، لیکن اس کے باوجود اس کی مماثلت انکے ساتھ برقرار ہے۔ ابوبکر ناجی نے جو نظریات و خیالات اس کتاب میں پیش کیے ہیں وہ کچھ حد تک وہی ہیں جو ابو مصعب الزرقاوی کی قیادت میں کچّے طور پر موجود تھا،ایسے نظریات و خیالات کہ جو ایک دہائی سے بھی کم عرصے میں ابوبکر بغدادی کی قیادت میں پختگی پذیر ہوئے ، اور داعش کی تنظیمی سرگرمی یعنی اسلامک اسٹیٹ آف عراق میں پوری طرح سے نافذ ہوئے۔

لہذا ، یہ استدلال کیا جاسکتا ہے کہ ’’مدیریت توحش‘‘ نامی یہ کتاب ایک ایسے گروہ کی نظریاتی تشکیل کا آئینہ ہے جو آج بے گناہ شامیوں اور عراقیوں کو بے حد بدامنی میں مبتلا کیے ہوئے ہے، جو کہ انہیں خوف ، قتل و غارت گری میں جینے اور انہیں اور بے گھر کرنے کا سبب بن رہی ہے ، داعش در حقیقت ایک ایسا گروپ ہے جو در حقیقت ، دنیا میں کہیں بھی آگ کو بھڑکانے میں ملوّث ہوسکتا ہے اور اسکے وجود کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ۔

«مدیریت توحش» کی تعریف

کتاب کا عربی اور اصل عنوان «إدارة التوحش؛ اخطر مرحله ستمر بها الامه» ہے، اس عبارت سے مدیریتِ توحش کی تعریف اور اسکے معنی کو بخوبی سمجھا جاسکتا ہے، یہ جملہ ہمیں بتاتا ہے کہ توحّش ایک مخصوص اصطلاح ہے جس کا اس کے لغوی معنی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، در حقیقت ، توحش نامی یہ تنظیم ایک ایسی کمیٹی اور تنظیم ہے جو ایک تہذیب یا ایک ریاستی نظام کے خاتمے اور کسی دوسری تہذیب یا ریاستی نظام کے ظہور کے درمیانی وقفے اور فاصلہ میں اپنا کام انجام دیتی ہے۔یہ ایک منتقلی کی مدت اور بات چیت کا ایک چھوٹا سا دورانیہ ہےجسمیں ایک حالت دوسری حالت میں تبدیل ہورہی ہے،انکے خیال میں سائکس پیکو اگریمنٹ[ Sykes–Picot Agreement]کے بعد حکومتیں بدل رہی ہیںاور دوسری نئی چیزیں انکی جگہ پر آرہی ہیں، اور وہ ایک طرح سے «احیاء خلافت» ہے،یہی وہ آئیڈیہ یا خیال ہے کہ جو ان دونوں کے درمیان واقع ہے کہ جسے توحش کا نام دیا گیا ہے؛اور ہاں اس بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ اسکے معنیٰ کی تھوڑا بہت نسبت اسکے لغوی معنیٰ سے ہے لیکن اسکا بیشتر حصہ اسکے اصطلاحی معنیٰ سے متعلق ہے جس پر وہ خود عمل درآمد کرتے ہیں،اور پھر مؤلف اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ توحش یا توحش کے مراحل ان بہت ہی زیادہ سخت مراحل میں سے ہیں کہ جس سے مسلم معاشرہ عبور کریگا، ناجی کتاب کے مقدمہ میں لکھتا ہے:

مدیریت توحش، اس دور کے سب سے خطرناک اقدام کی نمائندگی کرتا ہے کہ جس سے امت عبور کرے گی کہ جو ایک کلی نقشے اورخاکے کی طرح ہے۔۔۔ مدیریت توحش وہ پر خطر موڑ ہے کے جس سے ہوکر امت گزرے گی؛ اگر ہم توحش کے راستے میں کامیاب ہوگئے تو اسکے بعد کا مرحلہ۔ان شاءاللہ۔ اسلامی حکومت کے نفاذ کا مرحلہ ہےکہ جسکے ہم خلافت کے سقوط کے بعد سے ہی منتظر تھے، اور اگر ہم شکست کھاتے ہیں تو اسکا مطلب جد و جہد کا خاتمہ نہیں ہے،لیکن یہ کہنا ضروری ہے کہ ان ناکامیوں کے نتیجہ توحش میں مزید اضافہ کی صورت میں سامنے آئے گا، کہ جو موجودہ صورتحال میں ہی ہوگا یا پھر 90 کی دہائی میں جب ہم کفریہ نظام میں تھے اس سے تو بدتر نہیں ہی ہوگا، کیونکہ توحش کا بدترین اور کمترین درجہ بھی نظام کفر کے وجود اور اسکے قیام سے کہیں بہتر ہیں۔

ناجی کی کتاب کا مذکورہ بالا فقرہ قارئین کے سامنے واضح طور پر یہ بات ظاہر کرتاہےکہ: ناجی کے خیال میں مدیریت توحش کا معنی ایسے انسانوں کی مدیریت اور انکا مینجمنٹ ہے کہ جو امن و امان، تعلیم و تربیت اور حفظان صحت جیسی معمولی چیزوں سے بھی محروم ہیں۔

خلاصۂ کلام یہ کہ ، ابوبکر ناجی کے کتابچہ کے مطابق اگر جہادیوں نے کسی علاقے پر قبضہ کرلیا تو وہ علاقہ جنگ اور تنازعہ اور بدامنی کے نتیجے میں چونکہ خطہ انتشار کا شکار ہوا ہے، اس لیے اسکی مدیریت لازم ہے،ناجی اس مرحلہ کو «توحش» کا نفاذ مانتا ہےاور جہادیوں کو مشورہ دیتا ہے کہ وہ اس مرحلہ میں مدیریت پر قدرت حاصل کریں، اور لوگوں میں امن و امان قائم کریں اور مقامی افراد کی توجہات اور انکی رضایت حاصل کریں اور انہیں اپنا گرویدہ بنائیں، ابوبکر اس مرحلے سے عبور کو خلافت کے نفاذ کے لیے لازم و ضروری مانتا ہے، اس ضمن میں وہ بطور مثال افغانستان کے طالبان کو بطور مثال پیش کرتا ہے کہ اگر چہ لوگ شروعات میں ان سے خوف کھاتے تھے لیکن جب طالبان نے لوگوں کے لیے وسائل فراہم کرنا شروع کیا اور انکی حفاظت اور خدمت میں پیش پیش رہے تو انہوں نے لوگوں کے دلوں کو بھی اپنی جانب کرلیااور اس طرح انہوں نے وہاں اسلامی حکومت کی بنیاد ڈال دی،چنانچہ جب لوگ داعش کی جانب سے انکی متشدد تصاویر کے ساتھ ہی لوگوں کی مدد کرنے کو بھی دیکھیں گے تو تو یہی تصاویر درحقیقت «مدیریت توحش»کی نمائندگی کریں گی کہ جسکا ناجی نے ذکر کیا ہے۔ابوبکر ناجی نے «مدیریت توحش کے آئیڈیلسٹک امیج» میں جہادیوں کے کام اور انکے مشن کو مندرجہ ذیل چیزوں میں خلاصہ کیا ہے:

  • لوگوں کی سیکیورٹی کا انتظام۔
  • لوگوں کے لیےکھانے پینے اور علاج معالجے کا انتظام۔
  • توحش والے علاقے کو دشمنوں کےحملہ سے بچانا۔
  • توحش والے علاقے میں رہنے والے لوگوں میں شرعی عدلیہ کا قیام۔
  • توحش والے علاقے کے نوجوانوں کو تعلیم دلاتے ہوئے انکے ایمان کو مستحکم بنانا اور اس مضمون کی اہمیت سے انیں آگاہ کرنااور ایک عسکریت پسند جماعت کا قیام کرکے جدوجہد کو تقویت بخشنا۔
  • ترجیح اور اہمیت کے لحاظ سے دینی اور شرعی اور دنیوی (مروجہ علم) علوم کی اشاعت پر توجہ دینا۔
  • نگرانی ایجنٹوں کی تیاری اور انہیں چاروں طرف پھیلانااور ایک محدود انٹیلی جنس یونٹ قائم کرنا۔
  • دنیا پرست لوگوں کو تھوڑا بہت مال و دولت دے کر تالیف قلوب کی خاطر حلال راستے اور اعلان شدہ قوانین کے مطابق عمل کرنا، حد اقل ان لوگوں کے ساتھ کہ جو اس انتظآم کے زیر سایہ زندگی گزار رہے ہیں۔
  • منافقین کو دلائل دے کر سمجھایا جائے اور ان کی منافقت کو دبایا جائے تاکہ وہ اپنے خیالات اور آراء کا اظہار کرنے سے پرہیز کریں اور پھر وہ منافقین جنہوں نے ہماری اطاعت کی ہے انکے حال کی مراعات کی جائےتاکہ وہ ہمارے لئے خطرہ نہ بنیں۔
  • اس حد تک آگے بڑھا جائے کہ دشمنوں پر حاوی ہوجائیں اور انہیں بکھیر کر رکھ دیں اور انکے اموال کو لوٹ لیں اور انہیں خوف و وحشت میں مبتلا کردیں کہ وہ مستقل خوف کا شکار رہیں۔
  • ایسے گروپوں کے ساتھ اتحاد قائم کریں کہ جس کے ساتھ اتحاد کی اجازت ہے۔

«مدیریت توحش»نامی یہ کتاب ، اپنی ابتدائی بحثوں میں ،ایک ایسی دنیا کا نقشہ کھینچتا ہے کہ جو سپر پاورز - امریکہ اور روس - کے زیر اقتدار ہے کہ جنہوں نے اپنی طاقت و قوت میڈیا اور فوجی قوتوں کے بل بوتے پر حاصل کی ہے۔

اپنی گفتگو کے آغاز میں ہی ، ابو بکر ناجی نے ، امریکہ اور روس کو اصلی دشمن قرار دیا ہے اور جہادی جدوجہد کے اصلی ہدف و مقصد کو انہیں ٹارگیٹ کرنا بتایا ہے، اور ان دونوں سوپر پاور حکومتوں کو بھی للکارا۔

ابوبکر ناجی ابتدائی بحث میں «سائکس پیکو معاہدے کے بعد سے عالمی نظام حکومت» کے عنوان تلے لکھتا ہے کہ «سائکس پیکو» معاہدے کے بعد عالمی نظام دو بڑے حصوں میں تقسیم ہوگیاکہ جو یہی دو ریاستیں امریکہ اور روس ہیں جنہوں نے اپنے حلیفوں اور اتحادیوں کے ساتھ ایک مجموعہ کے طور پر آکر کام کرنے لگے، وہ ایک اور جگہ پر «طاقت کا وہم؛ فوجی طاقت اور جھوٹے میڈیا کے توسط سے»کے عنوان سےلکھتا ہے کہ عالمی نظام پر انکا تسلط انکی مرکزی قدرت و طاقت کے بل بوتے پر ہے، ابوبکر ناجی نے تین طریقوں سے طاقت کے مرکزیت کے عوامل کا مطالعہ کرتا ہے:

  1. فوجی طاقت: ابوبکر ناجی لکھتا ہے«یہ سچ ہے کہ یہ طاقتیں[اپنی فوجی طاقت کے استعمال کی بنیاد پر] عظیم ہیں اور یہ کہ وہ مسلم دنیا پر حکمرانی کرنے والے داخلی نظاموں کی قوتوں پر انحصار کرتے ہیں ، لیکن یہ کافی نہیں ہے»۔
  2. میڈیا کے پروپیگنڈے کا سہارا: ناجی گزشتہ مطلب میں مزید اضافہ کرتے ہوئےلکھتا ہے«لہذا دونوں طاقتیں جھوٹی میڈیا کا سہارا لیتے ہیں تاکہ انہیں ایک ناقابل تسخیر طاقت کے طور پر پیش کیا جاسکے جو پوری دنیا میں اپنا اثر و رسوخ جمائے ہوئے ہے»۔
  3. معاشرتی ہم آہنگی: «اس کی مرکزی طاقت عظیم فوجی قوت اور اس کے جھوٹے میڈیا کے ذریعہ ظاہر ہوتی ہے ، جو ایک مربوط اور ہم آہنگ معاشرے میں اپنا کردار ادا کرتی ہے، اور معاشرے کو مطمئن رکھتی ہے اور انہیں اصلیت کی بھنک تک نہیں لگنے دیتی»۔

ناجی،سلفی گروپوں کے مقصد کو «ذلت و رسوائی میں گرفتار امت کو ذلت کی زندگی سے نکالنا» قرار دیتا ہے تاکہ انسانیت کو نجات کی راہ پر گامزن کیا جاسکے، وہ اسلامی تحریکوں کو متعارف کراتے ہوئےلکھتا ہے کہ اس ضمن میں صرف پانچ ہی ایسی تنظیمیں ہیں جنکے پاس لائحۂ عمل اور مکتوب صورت میں انکا منشور موجود ہے اور جنہوں قابل بحث باتیں اور واضح نظام پیش کیا ہے:

  1. سلفی تحریک بنام «الصحوہ» (بیداری): جسکے روح رواں سلمان العودہ اور سفر الحوالی ہیں۔ ابوبکر ناجی کا خیال ہے کہ «الصحوہ» سلفی تحریک اپنی حالیہ شکل [انتظامی تنظیم کا قیام]میں ، زیادہ تر اخوان المسلمین کی تحریک سے مماثلت رکھتی ہے۔ اس فرق کے ساتھ کہ یہ تحریک اخوان المسلمین کے برعکس،اپنے منصوبوں کو صرف نظریاتی طور پر پیش کرتی ہے اور اس پر عمل درآمد میں کوئی کردار ادا نہیں کرتی۔
  2. جریان الاخوان (جنبش اخوان المسلمین مادر)؛ناجی اسے بدعت آمیز اور سیکولر خیالات کا حامل مانتا ہے۔
  3. جریان خوان الترابی:ناجی نے اس پر شریعت کو نظرانداز کرنے کا الزام عائد کیا ہے ، جس کی حکمرانی ایک سیکولر ریاست میں تبدیل ہو چکی ہے کہ جس میں اسلام کے نام پر کاروبار کے سوا کچھ نہیں ہے۔
  4. جریان «جهاد الشعبی» (جیسےحماس کی تحریک اور مورو لبریشن فرنٹ اور ...): اگرچہ ناجی «جہاد الشعبی» کی تحریک کے منصوبے کو «سلفی جہادی» تحریک سے تشبیہ دیتا ہے ، لیکن اس کا خیال ہے کہ اس کی سیاسی لائن اخوان المسلمین کے طریقہ سے اخذ کی گئی ہے اور حسن الترابی کے ساتھ وابستہ ہے۔
  5. سلفی جہادی تحریک: ناجی اس تحریک کے بارے میں لکھتا ہے:« سلفی ۔جہادی تحریک میرے خیال میں ، ایک جامع حل پیش کرتی ہے جس میں شریعت اور عالمی روایات دونوں شامل ہیں » ۔ کتاب کے مصنف کا خیال ہے کہ «سلفی جہادی»تحریک اسکے دشمنوں کے درمیان جنگ انبیاء اور کافروں اور طاغیوں کے مابین جنگ کی طرح ہے یا اگر یہ کہا جائے تو بھی غلط نہ ہوگا کہ «اسی جنگ کی اصل حقیقت کا تسلسل ہے تب بھی کوئی اس سے انکار نہیں کرسکتا»

نتیجہ

اس کتاب کا بنیادی مقصد یہ بتانا ہے کہ کس طرح ایک اسلامی خلافت کی تشکیل ہو اور پھر خلافت کے ذریعہ کس طرح حکومت پر قابو پایا جائے، اس کتاب میں موجود متن کے مطابق 1916 کے معاہدے اور خلافت اسلامیہ کے خاتمے کے بعد ، عالم اسلام پر ایک ایسی صورتحال طاری ہوگئی ہے کہ جسے توحش کا نام دیا گیا ہے، سوویت یونین اور ریاستہائے متحدہ امریکہ کے دو بلاکوں کی طاقت کے کمزور پڑنے کے بعد سے صورتحال مزید نازک ہوگئی ہے،ابوبکر ناجی کا خیال ہے کہ ان نازک حالات میں توحش و بربریت میں نسق نظم لانا اور اسے کنٹرول کرنا بہت ضروری ہے اور اسکے لیے توحش انتطامیہ کی ضرورت ہے جو کہ داعش کی شکل و صورت میں موجود ہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .